MUSLIM360
DOWNLOAD OUR APP
The Muslim 360 application is available on Google Play Store and App Store.so please ensure that you download the latest version available to enjoy the latest features and updates.
DOWNLOAD OUR APP
The Muslim 360 application is available on Google Play Store and App Store.so please ensure that you download the latest version available to enjoy the latest features and updates.
Hadith on THE STORIES OF THE PROPHETS of Sahih Bukhari 3401 is about The Book Of THE BOOK OF THE STORIES OF THE PROPHETS as written by Imam Muhammad al-Bukhari. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter THE BOOK OF THE STORIES OF THE PROPHETS has 163 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، قَالَ : قُلْتُ : لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ ، فَقَالَ : كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ ، فَقَالَ : أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ لَهُ : بَلَى لِي عَبْدٌ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ ، قَالَ : أَيْ رَبِّ وَمَنْ لِي بِهِ وَرُبَّمَا ، قَالَ سُفْيَانُ : أَيْ رَبِّ وَكَيْفَ لِي بِهِ ، قَالَ : تَأْخُذُ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ حَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ وَرُبَّمَا ، قَالَ : فَهُوَ ثَمَّهْ وَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ ، ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ حَتَّى إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَرَقَدَ مُوسَى وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فَخَرَجَ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنِ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ فَصَارَ مِثْلَ الطَّاقِ ، فَقَالَ : هَكَذَا مِثْلُ الطَّاقِ فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ ، قَالَ : لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ حَيْثُ أَمَرَهُ اللَّهُ ، قَالَ : لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلَهُمَا عَجَبًا ، قَالَ : لَهُ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ مُوسَى فَرَدَّ عَلَيْهِ ، فَقَالَ : وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ ، قَالَ : أَنَا مُوسَى ، قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ ، قَالَ : نَعَمْ ، أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ، قَالَ : يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ ، قَالَ : هَلْ أَتَّبِعُكَ ، قَالَ : إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا إِلَى قَوْلِهِ إِمْرًا سورة الكهف آية 68 - 71 فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ كَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُ بِغَيْرِ نَوْلٍ فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ جَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ ، قَالَ لَهُ : الْخَضِرُ يَا مُوسَى مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ إِذْ أَخَذَ الْفَأْسَ فَنَزَعَ لَوْحًا ، قَالَ : فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِلَّا وَقَدْ قَلَعَ لَوْحًا بِالْقَدُّومِ ، فَقَالَ : لَهُ مُوسَى مَا صَنَعْتَ قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا ، قَالَ : أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا سورة الكهف آية 72 ، قَالَ : لا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا سورة الكهف آية 73 فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا فَلَمَّا خَرَجَا مِنَ الْبَحْرِ مَرُّوا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَلَعَهُ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَوْمَأَ سُفْيَانُ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ كَأَنَّهُ يَقْطِفُ شَيْئًا ، فَقَالَ : لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا ، قَالَ : أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا سورة الكهف آية 75 ، قَالَ : إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا { 76 } فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ سورة الكهف آية 75-76 مَائِلًا أَوْمَأَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ سُفْيَانُ كَأَنَّهُ يَمْسَحُ شَيْئًا إِلَى فَوْقُ فَلَمْ أَسْمَعْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ مَائِلًا إِلَّا مَرَّةً ، قَالَ : قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا عَمَدْتَ إِلَى حَائِطِهِمْ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا ، قَالَ : هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا سورة الكهف آية 78 ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ فَقَصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا ، قَالَ : سُفْيَانُ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوْ كَانَ صَبَرَ لَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ 0 مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ 0 ، ثُمَّ قَالَ لِي سُفْيَانُ : سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ ، قِيلَ لِسُفْيَانَ حَفِظْتَهُ قَبْلَ أَنْ تَسْمَعَهُ مِنْ عَمْرٍو أَوْ تَحَفَّظْتَهُ مِنْ إِنْسَانٍ ، فَقَالَ : مِمَّنْ أَتَحَفَّظُهُ وَرَوَاهُ أَحَدٌ ، عَنْ عَمْرٍو غَيْرِي سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ .
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ ‘ صاحب خضر بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے موسیٰ ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دشمن اللہ نے بالکل غلط بات کہی ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے ہم سے بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو کھڑے ہو کر خطاب فرما رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا کون سا شخص سب سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ کیوں نہیں میرا ایک بندہ ہے جہاں دو دریا آ کر ملتے ہیں وہاں رہتا ہے اور تم سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اے رب العالمین! میں ان سے کس طرح مل سکوں گا؟ سفیان نے ( اپنی روایت میں یہ الفاظ ) بیان کئے کہ ”اے رب! «وكيف لي به» “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی پکڑ کر اسے اپنے تھیلے میں رکھ لینا ‘ جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے بس میرا بندہ وہیں تم کو ملے گا۔ بعض دفعہ راوی نے ( بجائے «فهو ثم» کے ) «فهو ثمه» کہا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لے لی اور اسے ایک تھیلے میں رکھ لیا۔ پھر وہ اور ایک ان کے رفیق سفر یوشع بن نون روانہ ہوئے ‘ جب یہ چٹان پر پہنچے تو سر سے ٹیک لگالی ‘ موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی اور مچھلی تڑپ کر نکلی اور دریا کے اندر چلی گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ محراب کی طرح ہو گئی ‘ انہوں نے واضح کیا کہ یوں محراب کی طرح۔ پھر یہ دونوں اس دن اور رات کے باقی حصے میں چلتے رہے ‘ جب دوسرا دن آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر سے فرمایا کہ اب ہمارا کھانا لاؤ کیونکہ ہم اپنے سفر میں بہت تھک گئے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکان محسوس نہیں کی تھی جب تک وہ اس مقررہ جگہ سے آگے نہ بڑھ گئے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ ان کے رفیق نے کہا کہ دیکھئیے تو سہی جب چٹان پر اترے تھے تو میں مچھلی ( کے متعلق کہنا ) آپ سے بھول گیا اور مجھے اس کی یاد سے شیطان نے غافل رکھا اور اس مچھلی نے تو وہیں ( چٹان کے قریب ) دریا میں اپنا راستہ عجیب طور پر بنا لیا تھا۔ مچھلی کو تو راستہ مل گیا اور یہ دونوں حیران تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہی وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے ہیں۔ چنانچہ یہ دونوں اسی راستے سے پیچھے کی طرف واپس ہوئے اور جب اس چٹان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ اپنا سارا جسم ایک کپڑے میں لپیٹے ہوئے موجود تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا پھر کہا کہ تمہارے خطے میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا؟ موسیٰ علیہ اسلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے پوچھا ‘ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم نافع سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے اور آپ اس کو نہیں جانتے۔ اسی طرح آپ کے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں انہوں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے اور واقعی آپ ان کاموں کے بارے میں صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إمرا» تک آخر موسیٰ اور خضر علیہم السلام دریا کے کنارے کنارے چلے۔ پھر ان کے قریب سے ایک کشتی گزری۔ ان حضرات نے کہا کہ انہیں بھی کشتی والے کشتی پر سوار کر لیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کوئی مزدوری لیے بغیر ان کو سوار کر لیا۔ جب یہ حضرات اس پر سوار ہو گئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ کر اس نے پانی میں اپنی چونچ کو ایک یا دو مرتبہ ڈالا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے اور آپ کے علم کی وجہ سے اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں ہوئی جتنی اس چڑیا کے دریا میں چونچ مارنے سے دریا کے پانی میں کمی ہوئی ہو گی۔ اتنے میں خضر علیہ السلام نے کلہاڑی اٹھائی اور اس کشتی میں سے ایک تختہ نکال لیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو نظر اٹھائی تو وہ اپنی کلہاڑی سے تختہ نکال چکے تھے۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ جن لوگوں نے ہمیں بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا انہیں کی کشتی پر آپ نے بری نظر ڈالی اور اسے چیر دیا کہ سارے کشتی والے ڈوب جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ نے نہایت ناگوار کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ( یہ بے صبری اپنے وعدہ کو بھول جانے کی وجہ سے ہوئی ‘ اس لیے ) آپ اس چیز کا مجھ سے مواخذہ نہ کریں جو میں بھول گیا تھا اور میرے معاملے میں تنگی نہ فرمائیں۔ یہ پہلی بات موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر ہوئی تھی پھر جب دریائی سفر ختم ہوا تو ان کا گزر ایک بچے کے پاس سے ہوا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے ( دھڑ سے ) جدا کر دیا۔ سفیان نے اپنے ہاتھ سے ( جدا کرنے کی کیفیت بتانے کے لیے ) اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز توڑ رہے ہوں۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے ایک جان کو ضائع کر دیا۔ کسی دوسری جان کے بدلے میں بھی یہ نہیں تھا۔ بلاشبہ آپ نے ایک برا کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اچھا اس کے بعد اگر میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو پھر آپ مجھے ساتھ نہ لے چلئے گا، بیشک آپ میرے بارے میں حد عذر کو پہنچ چکے ہیں۔ پھر یہ دونوں آگے بڑھے اور جب ایک بستی میں پہنچے تو بستی والوں سے کہا کہ وہ انہیں اپنا مہمان بنا لیں ‘ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا۔ سفیان نے ( کیفیت بتانے کے لیے ) اس طرح اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز اوپر کی طرف پھیر رہے ہوں۔ میں نے سفیان سے «مائلا» کا لفظ صرف ایک مرتبہ سنا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ تو ایسے تھے کہ ہم ان کے یہاں آئے اور انہوں نے ہماری میزبانی سے بھی انکار کیا۔ پھر ان کی دیوار آپ نے ٹھیک کر دی ‘ اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت ان سے لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس یہاں سے میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہو گئی جن باتوں پر آپ صبر نہیں کر سکتے ‘ میں ان کی تاویل و توجیہ اب تم پر واضح کر دوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری تو خواہش یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ تکوینی واقعات ہمارے لیے بیان کرتا۔ سفیان نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ‘ اگر انہوں نے صبر کیا ہوتا تو ان کے ( مزید واقعات ) ہمیں معلوم ہوتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ( جمہور کی قرآت «ودرائهم» کے بجائے ) «أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا» پڑھا ہے۔ اور وہ بچہ ( جس کی خضر علیہ السلام نے جان لی تھی ) کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے۔ پھر مجھ سے سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبہ سنی تھی اور انہیں سے ( سن کر ) یاد کی تھی۔ سفیان نے کسی سے پوچھا تھا کہ کیا یہ حدیث آپ نے عمرو بن دینار سے سننے سے پہلے ہی کسی دوسرے شخص سے سن کر ( جس نے عمرو بن دینار سے سنی ہو ) یاد کی تھی؟ یا ( اس کے بجائے یہ جملہ کہا ) «تحفظته من إنسان» دو مرتبہ ( شک علی بن عبداللہ کو تھا ) تو سفیان نے کہا کہ دوسرے کسی شخص سے سن کر میں یاد کرتا ‘ کیا اس حدیث کو عمرو بن دینار سے میرے سوا کسی اور نے بھی روایت کیا ہے؟ میں نے ان سے یہ حدیث دو یا تین مرتبہ سنی اور انہیں سے سن کر یاد کی۔
Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn `Abbas, Nauf Al-Bukah claims that Moses, the companion of Al-Khadir was not Moses (the prophet) of the children of Israel, but some other Moses. Ibn `Abbas said, Allah's enemy (i.e. Nauf) has told a lie. Ubai bin Ka`b told us that the Prophet said, 'Once Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked who was the most learned man amongst the people. He said, 'I.' Allah admonished him as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So, Allah said to him, 'Yes, at the junction of the two seas there is a Slave of Mine who is more learned than you.' Moses said, 'O my Lord! How can I meet him?' Allah said, 'Take a fish and put it in a large basket and you will find him at the place where you will lose the fish.' Moses took a fish and put it in a basket and proceeded along with his (servant) boy, Yusha` bin Noon, till they reached the rock where they laid their heads (i.e. lay down). Moses slept, and the fish, moving out of the basket, fell into the sea. It took its way into the sea (straight) as in a tunnel. Allah stopped the flow of water over the fish and it became like an arch (the Prophet pointed out this arch with his hands). They travelled the rest of the night, and the next day Moses said to his boy (servant), 'Give us our food, for indeed, we have suffered much fatigue in this journey of ours.' Moses did not feel tired till he crossed that place which Allah had ordered him to seek after. His boy (servant) said to him, 'Do you know that when we were sitting near that rock, I forgot the fish, and none but Satan caused me to forget to tell (you) about it, and it took its course into the sea in an amazing way?.' So there was a path for the fish and that astonished them. Moses said, 'That was what we were seeking after.' So, both of them retraced their footsteps till they reached the rock. There they saw a man Lying covered with a garment. Moses greeted him and he replied saying, 'How do people greet each other in your land?' Moses said, 'I am Moses.' The man asked, 'Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes, I have come to you so that you may teach me from those things which Allah has taught you.' He said, 'O Moses! I have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught me, and which you do not know, while you have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught you and which I do not know.' Moses asked, 'May I follow you?' He said, 'But you will not be able to remain patient with me for how can you be patient about things which you will not be able to understand?' (Moses said, 'You will find me, if Allah so will, truly patient, and I will not disobey you in aught.') So, both of them set out walking along the sea-shore, a boat passed by them and they asked the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and so they took them on board without fare. When they were on board the boat, a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice into the sea. Al-Khadir said to Moses, 'O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's Knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak.' Then suddenly Al-Khadir took an adze and plucked a plank, and Moses did not notice it till he had plucked a plank with the adze. Moses said to him, 'What have you done? They took us on board charging us nothing; yet you I have intentionally made a hole in their boat so as to drown its passengers. Verily, you have done a dreadful thing.' Al-Khadir replied, 'Did I not tell you that you would not be able to remain patient with me?' Moses replied, 'Do not blame me for what I have forgotten, and do not be hard upon me for my fault.' So the first excuse of Moses was that he had forgotten. When they had left the sea, they passed by a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boys head and plucked it with his hand like this. (Sufyan, the sub narrator pointed with his fingertips as if he was plucking some fruit.) Moses said to him, Have you killed an innocent person who has not killed any person? You have really done a horrible thing. Al-Khadir said, Did I not tell you that you could not remain patient with me?' Moses said If I ask you about anything after this, don't accompany me. You have received an excuse from me.' Then both of them went on till they came to some people of a village, and they asked its inhabitant for wood but they refused to entertain them as guests. Then they saw therein a wall which was just going to collapse (and Al Khadir repaired it just by touching it with his hands). (Sufyan, the sub-narrator, pointed with his hands, illustrating how Al-Khadir passed his hands over the wall upwards.) Moses said, These are the people whom we have called on, but they neither gave us food, nor entertained us as guests, yet you have repaired their wall. If you had wished, you could have taken wages for it. Al-Khadir said, This is the parting between you and me, and I shall tell you the explanation of those things on which you could not remain patient. The Prophet added, We wished that Moses could have remained patient by virtue of which Allah might have told us more about their story. (Sufyan the sub-narrator said that the Prophet said, May Allah bestow His Mercy on Moses! If he had remained patient, we would have been told further about their case. )
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, Allah created Adam, making him 60 cubits tall. When He created him, He said to him, Go and greet that group of angels, and listen to their reply, for it will be your greeting (salutation) and the greeting (salutations of your offspring. So, Adam said (to the angels), As-Salamu Alaikum (i.e. Peace be upon you). The angels said, As-salamu Alaika wa Rahmatu-l-lahi (i.e. Peace and Allah's Mercy be upon you). Thus the angels added to Adam's salutation the expression, 'Wa Rahmatu-l-lahi,' Any person who will enter Paradise will resemble Adam (in appearance and figure). People have been decreasing in stature since Adam's creation.
Read CompleteNarrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, The first group of people who will enter Paradise, will be glittering like the full moon and those who will follow them, will glitter like the most brilliant star in the sky. They will not urinate, relieve nature, spit, or have any nasal secretions. Their combs will be of gold, and their sweat will smell like musk. The aloes-wood will be used in their centers. Their wives will be houris. All of them will look alike and will resemble their father Adam (in statute), sixty cubits tall.
Read CompleteNarrated Abu Salama: Um Salama said, Um Sulaim said, 'O Allah's Apostle! Allah does not refrain from saying the truth! Is it obligatory for a woman to take a bath after she gets nocturnal discharge?' He said, 'Yes, if she notices the water (i.e. discharge).' Um Salama smiled and said, 'Does a woman get discharge?' Allah's Apostle said. 'Then why does a child resemble (its mother)?
Read CompleteNarrated Anas: When `Abdullah bin Salam heard the arrival of the Prophet at Medina, he came to him and said, I am going to ask you about three things which nobody knows except a prophet: What is the first portent of the Hour? What will be the first meal taken by the people of Paradise? Why does a child resemble its father, and why does it resemble its maternal uncle Allah's Apostle said, Gabriel has just now told me of their answers. `Abdullah said, He (i.e. Gabriel), from amongst all the angels, is the enemy of the Jews. Allah's Apostle said, The first portent of the Hour will be a fire that will bring together the people from the east to the west; the first meal of the people of Paradise will be Extra-lobe (caudate lobe) of fish-liver. As for the resemblance of the child to its parents: If a man has sexual intercourse with his wife and gets discharge first, the child will resemble the father, and if the woman gets discharge first, the child will resemble her. On that `Abdullah bin Salam said, I testify that you are the Apostle of Allah. `Abdullah bin Salam further said, O Allah's Apostle! The Jews are liars, and if they should come to know about my conversion to Islam before you ask them (about me), they would tell a lie about me. The Jews came to Allah's Apostle and `Abdullah went inside the house. Allah's Apostle asked (the Jews), What kind of man is `Abdullah bin Salam amongst you? They replied, He is the most learned person amongst us, and the best amongst us, and the son of the best amongst us. Allah's Apostle said, What do you think if he embraces Islam (will you do as he does)? The Jews said, May Allah save him from it. Then `Abdullah bin Salam came out in front of them saying, I testify that None has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is the Apostle of Allah. Thereupon they said, He is the evilest among us, and the son of the evilest amongst us, and continued talking badly of him.
Read CompleteNarrated Abu Huraira: The Prophet said, But for the Israelis, meat would not decay and but for Eve, wives would never betray their husbands.
Read Complete