MUSLIM360
DOWNLOAD OUR APP
The Muslim 360 application is available on Google Play Store and App Store.so please ensure that you download the latest version available to enjoy the latest features and updates.
DOWNLOAD OUR APP
The Muslim 360 application is available on Google Play Store and App Store.so please ensure that you download the latest version available to enjoy the latest features and updates.
Hadith on JIHAD (Fighting for Allah’s Cause) of Sahih Bukhari 2941 is about The Book Of THE BOOK OF JIHAD (Fighting for Allah’s Cause) as written by Imam Muhammad al-Bukhari. The original Hadith is written in Arabic and translated in English and Urdu. The chapter THE BOOK OF JIHAD (Fighting for Allah’s Cause) has 309 as total Hadith on this topic.
Hadith Book
Chapters
Hadith
قَالَ : ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ أَنَّهُ كَانَ بِالشَّأْمِ فِي رِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدِمُوا تِجَارًا فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كُفَّارِ قُرَيْشٍ ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ : فَوَجَدَنَا رَسُولُ قَيْصَرَ بِبَعْضِ الشَّأْمِ فَانْطُلِقَ بِي وَبِأَصْحَابِي حَتَّى قَدِمْنَا إِيلِيَاءَ فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي مَجْلِسِ مُلْكِهِ وَعَلَيْهِ التَّاجُ ، وَإِذَا حَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ ، فَقَالَ : لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُمْ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ ، قَالَ : أَبُو سُفْيَانَ ، فَقُلْتُ : أَنَا أَقْرَبُهُمْ إِلَيْهِ نَسَبًا ، قَالَ : مَا قَرَابَةُ مَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ ، فَقُلْتُ : هُوَ ابْنُ عَمِّي وَلَيْسَ فِي الرَّكْبِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ غَيْرِي ، فَقَالَ : قَيْصَرُ أَدْنُوهُ وَأَمَرَ بِأَصْحَابِي فَجُعِلُوا خَلْفَ ظَهْرِي عِنْدَ كَتِفِي ، ثُمَّ قَالَ : لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لِأَصْحَابِهِ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلَ عَنِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَ فَكَذِّبُوهُ ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ : وَاللَّهِ لَوْلَا الْحَيَاءُ يَوْمَئِذٍ مِنْ أَنْ يَأْثُرَ أَصْحَابِي عَنِّي الْكَذِبَ لَكَذَبْتُهُ حِينَ سَأَلَنِي عَنْهُ وَلَكِنِّي اسْتَحْيَيْتُ أَنْ يَأْثُرُوا الْكَذِبَ عَنِّي فَصَدَقْتُهُ ، ثُمَّ قَالَ : لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ كَيْفَ نَسَبُ هَذَا الرَّجُلِ فِيكُمْ ، قُلْتُ : هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ ، قَالَ : فَهَلْ ، قَالَ : هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَبْلَهُ ، قُلْتُ : لَا ، فَقَالَ : كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ عَلَى الْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا ، قَالَ قُلْتُ : لَا ، قَالَ : فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ ، قُلْتُ : لَا ، قَالَ : فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ ، قُلْتُ : بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ ، قَالَ : فَيَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ ، قُلْتُ : بَلْ يَزِيدُونَ ، قَالَ : فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ ، قُلْتُ : لَا ، قَالَ : فَهَلْ يَغْدِرُ ، قُلْتُ : لَا وَنَحْنُ الْآنَ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ نَحْنُ نَخَافُ أَنْ يَغْدِرَ ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ : وَلَمْ يُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا أَنْتَقِصُهُ بِهِ لَا أَخَافُ أَنْ تُؤْثَرَ عَنِّي غَيْرُهَا ، قَالَ : فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ أَوْ قَاتَلَكُمْ ، قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَكَيْفَ كَانَتْ حَرْبُهُ وَحَرْبُكُمْ ، قُلْتُ : كَانَتْ دُوَلًا وَسِجَالًا يُدَالُ عَلَيْنَا الْمَرَّةَ وَنُدَالُ عَلَيْهِ الْأُخْرَى ، قَالَ : فَمَاذَا يَأْمُرُكُمْ ، قَالَ : يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَانَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ ، وَالصَّدَقَةِ ، وَالْعَفَافِ ، وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ ، فَقَالَ : لِتَرْجُمَانِهِ حِينَ ، قُلْتُ : ذَلِكَ لَهُ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ ، عَنْ نَسَبِهِ فِيكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ ذُو نَسَبٍ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ ، هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا ، فَقُلْتُ : لَوْ كَانَ أَحَدٌ مِنْكُمْ ، قَالَ : هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ ، قُلْتُ : رَجُلٌ يَأْتَمُّ بِقَوْلٍ قَدْ قِيلَ قَبْلَهُ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا ، قَالَ : فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا ، فَقُلْتُ : لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ ، قُلْتُ : يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ وَسَأَلْتُكَ أَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ ، أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا ، فَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تَخْلِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ لَا يَسْخَطُهُ أَحَدٌ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا يَغْدِرُونَ ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَكُمْ فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ وَأَنَّ حَرْبَكُمْ وَحَرْبَهُ تَكُونُ دُوَلًا وَيُدَالُ عَلَيْكُمُ الْمَرَّةَ وَتُدَالُونَ عَلَيْهِ الْأُخْرَى ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى وَتَكُونُ لَهَا الْعَاقِبَةُ ، وَسَأَلْتُكَ بِمَاذَا يَأْمُرُكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلَاةِ ، وَالصَّدَقَةِ ، وَالْعَفَافِ ، وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ ، قَالَ : وَهَذِهِ صِفَةُ النَّبِيِّ قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ ، وَلَكِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْكُمْ وَإِنْ يَكُ مَا ، قُلْتَ : حَقًّا فَيُوشِكُ أَنْ يَمْلِكَ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ ، وَلَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لُقِيَّهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ قَدَمَيْهِ ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ : ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُرِئَ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ ، أَسْلِمْ ، تَسْلَمْ ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الْأَرِيسِيِّينَ وَ يَأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 64 قَالَ أَبُو سُفْيَانَ : فَلَمَّا أَنْ قَضَى مَقَالَتَهُ عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِينَ حَوْلَهُ مِنْ عُظَمَاءِ الرُّومِ ، وَكَثُرَ لَغَطُهُمْ فَلَا أَدْرِي مَاذَا قَالُوا وَأُمِرَ بِنَا ، فَأُخْرِجْنَا فَلَمَّا أَنْ خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِي وَخَلَوْتُ بِهِمْ ، قُلْتُ لَهُمْ : لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ هَذَا مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ يَخَافُهُ ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ : وَاللَّهِ مَا زِلْتُ ذَلِيلًا مُسْتَيْقِنًا بِأَنَّ أَمْرَهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ قَلْبِي الْإِسْلَامَ ، وَأَنَا كَارِهٌ .
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مجھے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ قریش کے ایک قافلے کے ساتھ وہ ان دنوں شام میں مقیم تھے۔ یہ قافلہ اس دور میں یہاں تجارت کی غرض سے آیا تھا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش میں باہم صلح ہو چکی تھی۔ ( صلح حدیبیہ ) ابوسفیان نے کہا کہ قیصر کے آدمی کی ہم سے شام کے ایک مقام پر ملاقات ہوئی اور وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنے ( قیصر کے دربار میں بیت المقدس ) لے کر چلا پھر جب ہم ایلیاء ( بیت المقدس ) پہنچے تو قیصر کے دربار میں ہماری بازیابی ہوئی۔ اس وقت قیصر دربار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سر پر تاج تھا اور روم کے امراء اس کے اردگرد تھے، اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو کہ جنہوں نے ان کے یہاں نبوت کا دعویٰ کیا ہے نسب کے اعتبار سے ان سے قریب ان میں سے کون شخص ہے؟ ابوسفیان نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں نسب کے اعتبار سے ان کے زیادہ قریب ہوں۔ قیصر نے پوچھا تمہاری اور ان کی قرابت کیا ہے؟ میں نے کہا ( رشتے میں ) وہ میرے چچازاد بھائی ہوتے ہیں، اتفاق تھا کہ اس مرتبہ قافلے میں میرے سوا بنی عبد مناف کا اور آدمی موجود نہیں تھا۔ قیصر نے کہا کہ اس شخص ( ابوسفیان رضی اللہ عنہ ) کو مجھ سے قریب کر دو اور جو لوگ میرے ساتھ تھے اس کے حکم سے میرے پیچھے قریب میں کھڑے کر دئیے گئے۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس شخص ( ابوسفیان ) کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ اس سے میں ان صاحب کے بارے میں پوچھوں گا جو نبی ہونے کے مدعی ہیں، اگر یہ ان کے بارے میں کوئی جھوٹ بات کہے تو تم فوراً اس کی تکذیب کر دو۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اگر اس دن اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کر بیٹھیں تو میں ان سوالات کے جوابات میں ضرور جھوٹ بول جاتا جو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کئے تھے، لیکن مجھے تو اس کا خطرہ لگا رہا کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کر دیں۔ اس لیے میں نے سچائی سے کام لیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے پوچھو کہ تم لوگوں میں ان صاحب ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نسب کیسا سمجھا جاتا ہے؟ میں نے بتایا کہ ہم میں ان کا نسب بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس نے پوچھا اچھا یہ نبوت کا دعویٰ اس سے پہلے بھی تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس نے پوچھا کیا اس دعویٰ سے پہلے ان پر کوئی جھوٹ کا الزام تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں، اس نے پوچھا ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ اس نے پوچھا تو اب بڑے امیر لوگ ان کی اتباع کرتے ہیں یا کمزور اور کم حیثیت کے لوگ؟ میں نے کہا کہ کمزور اور معمولی حیثیت کے لوگ ہی ان کے ( زیادہ تر ماننے والے ہیں ) اس نے پوچھا کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا گھٹتی جا رہی ہے؟ میں نے کہا جی نہیں تعداد برابر بڑھتی جا رہی ہے۔ اس نے پوچھا کوئی ان کے دین سے بیزار ہو کر اسلام لانے کے بعد پھر بھی گیا ہے کیا؟ میں نے کہا کہ نہیں، اس نے پوچھا انہوں نے کبھی وعدہ خلافی بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں لیکن آج کل ہمارا ان سے ایک معاہدہ ہو رہا ہے اور ہمیں ان کی طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ پوری گفتگو میں سوا اس کے اور کوئی ایسا موقع نہیں ملا جس میں میں کوئی ایسی بات ( جھوٹی ) ملا سکوں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہو۔ اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے بھی جھٹلانے کا ڈر نہ ہو۔ اس نے پھر پوچھا کیا تم نے کبھی ان سے لڑائی کی ہے یا انہوں نے تم سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں، اس نے پوچھا تمہاری لڑائی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ میں نے کہا لڑائی میں ہمیشہ کسی ایک گروہ نے فتح نہیں حاصل کی۔ کبھی وہ ہمیں مغلوب کر لیتے ہیں اور کبھی ہم انہیں، اس نے پوچھا وہ تمہیں کن کاموں کا حکم دیتے ہیں؟ کہا ہمیں وہ اس کا حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں، ہمیں ان بتوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے، نماز، صدقہ، پاک بازی و مروت، وفاء، عہد اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ جب میں اسے یہ تمام باتیں بتا چکا تو اس نے اپنے ترجمان سے کہا، ان سے کہو کہ میں نے تم سے ان صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے متعلق دریافت کیا تو تم نے بتایا کہ وہ تمہارے یہاں صاحب نسب اور شریف سمجھے جاتے ہیں اور انبیاء بھی یوں ہی اپنی قوم کے اعلیٰ نسب میں پیدا کئے جاتے ہیں۔ میں نے تم سے یہ پوچھا تھا کہ کیا نبوت کا دعویٰ تمہارے یہاں اس سے پہلے بھی کسی نے کیا تھا تم نے بتایا کہ ہمارے یہاں ایسا دعویٰ پہلے کسی نے نہیں کیا تھا، اس سے میں یہ سمجھا کہ اگر اس سے پہلے تمہارے یہاں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہوتا تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ صاحب بھی اسی دعویٰ کی نقل کر رہے ہیں جو اس سے پہلے کیا جا چکا ہے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان کی طرف جھوٹ منسوب کیا تھا، تم نے بتایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص جو لوگوں کے متعلق کبھی جھوٹ نہ بول سکا ہو وہ اللہ کے متعلق جھوٹ بول دے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ تھا، تم نے بتایا کہ نہیں۔ میں نے اس سے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ ( نبوت کا دعویٰ کر کے ) وہ اپنے باپ دادا کی سلطنت حاصل کرنا چاہتے ہیں، میں نے تم سے دریافت کیا کہ ان کی اتباع قوم کے بڑے لوگ کرتے ہیں یا کمزور اور بے حیثیت لوگ، تم نے بتایا کہ کمزور غریب قسم کے لوگ ان کی تابعداری کرتے ہیں اور یہی گروہ انبیاء کی ( ہر دور میں ) اطاعت کرنے والا رہا ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ ان تابعداروں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا گھٹتی بھی ہے؟ تم نے بتایا کہ وہ لوگ برابر بڑھ ہی رہے ہیں، ایمان کا بھی یہی حال ہے، یہاں تک کہ وہ مکمل ہو جائے، میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد کبھی اس سے پھر بھی گیا ہے؟ تم نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، ایمان کا بھی یہی حال ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے تو پھر کوئی چیز اس سے مومن کو ہٹا نہیں سکتی۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے وعدہ خلافی بھی کی ہے؟ تم نے اس کا بھی جواب دیا کہ نہیں، انبیاء کی یہی شان ہے کہ وہ وعدہ خلافی کبھی نہیں کرتے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے کبھی ان سے یا انہوں نے تم سے جنگ بھی کی ہے؟ تم نے بتایا کہ ایسا ہوا ہے اور تمہاری لڑائیوں کا نتیجہ ہمیشہ کسی ایک ہی کے حق میں نہیں گیا۔ بلکہ کبھی تم مغلوب ہوئے ہو اور کبھی وہ۔ انبیاء کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے وہ امتحان میں ڈالے جاتے ہیں لیکن انجام انہیں کا بہتر ہوتا ہے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ وہ تم کو کن کاموں کا حکم دیتے ہیں؟ تم نے بتایا کہ وہ ہمیں اس کا حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں تمہارے ان معبودوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی تمہارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے۔ تمہیں وہ نماز، صدقہ، پاک بازی، وعدہ وفائی اور اداء امانت کا حکم دیتے ہیں، اس نے کہا کہ ایک نبی کی یہی صفت ہے میرے بھی علم میں یہ بات تھی کہ وہ نبی مبعوث ہونے والے ہیں۔ لیکن یہ خیال نہ تھا کہ تم میں سے وہ مبعوث ہوں گے، جو باتیں تم نے بتائیں اگر وہ صحیح ہیں تو وہ دن بہت قریب ہے جب وہ اس جگہ پر حکمراں ہوں گے جہاں اس وقت میرے دونوں قدم موجود ہیں، اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کی توقع ہوتی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی پوری کوشش کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں موجود ہوتا تو ان کے پاؤں دھوتا۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ اس کے بعد قیصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک طلب کیا اور وہ اس کے سامنے پڑھا گیا اس میں لکھا ہوا تھا ( ترجمہ ) شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا ہی مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ خط ہے محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف، اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت قبول کر لے۔ امابعد میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرو، تمہیں بھی سلامتی و امن حاصل ہو گی اور اسلام قبول کرو اللہ تمہیں دہرا اجر دے گا ( ایک تمہارے اپنے اسلام کا اور دوسرا تمہاری قوم کے اسلام کا جو تمہاری وجہ سے اسلام میں داخل ہو گی ) لیکن اگر تم نے اس دعوت سے منہ موڑ لیا تو تمہاری رعایا کا گناہ بھی تم پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسے کلمہ پر آ کر ہم سے مل جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہی ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو پروردگار بنائے اب بھی اگر تم منہ موڑتے ہو تو اس کا اقرار کر لو کہ ( اللہ تعالیٰ کا واقعی ) فرمان بردار ہم ہی ہیں۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ جب ہرقل اپنی بات پوری کر چکا تو روم کے سردار اس کے اردگرد جمع تھے، سب ایک ساتھ چیخنے لگے اور شور و غل بہت بڑھ گیا۔ مجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے تھے۔ پھر ہمیں حکم دیا گیا اور ہم وہاں سے نکال دئیے گئے۔ جب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے چلا آیا اور ان کے ساتھ تنہائی ہوئی تو میں نے کہا کہ ابن ابی کبشہ ( مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ) کا معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے، ”بنو الاصفر“ ( رومیوں ) کا بادشاہ بھی اس سے ڈرتا ہے، ابوسفیان نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! مجھے اسی دن سے اپنی ذلت کا یقین ہو گیا تھا اور برابر اس بات کا بھی یقین رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور غالب ہوں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بھی اسلام داخل کر دیا۔ حالانکہ ( پہلے ) میں اسلام کو برا جانتا تھا۔
At that time Abu Sufyan bin Harb was in Sham with some men frown Quraish who had come (to Sham) as merchants during the truce that had been concluded between Allah's Apostle; and the infidels of Quraish. Abu Sufyan said, Caesar's messenger found us somewhere in Sham so he took me and my companions to Ilya and we were admitted into Ceasar's court to find him sitting in his royal court wearing a crown and surrounded by the senior dignitaries of the Byzantine. He said to his translator. 'Ask them who amongst them is a close relation to the man who claims to be a prophet. Abu Sufyan added, I replied, 'I am the nearest relative to him.' He asked, 'What degree of relationship do you have with him?' I replied, 'He is my cousin,' and there was none of Bani Abu Manaf in the caravan except myself. Caesar said, 'Let him come nearer.' He then ordered that my companions stand behind me near my shoulder and said to his translator, 'Tell his companions that I am going to ask this man about the man who claims to be a prophet. If he tells a lie, they should contradict him immediately. Abu Sufyan added, By Allah! Had it not been shameful that my companions label me a liar, I would not have spoken the truth about him when he asked me. But I considered it shameful to be called a liar by my companions. So I told the truth. He then said to his translator, 'Ask him what kind of family does he belong to.' I replied, 'He belongs to a noble family amongst us.' He said, 'Have anybody else amongst you ever claimed the same before him? 'I replied, 'No.' He said, 'Had you ever blamed him for telling lies before he claimed what he claimed? ' I replied, 'No.' He said, 'Was anybody amongst his ancestors a king?' I replied, 'No.' He said, Do the noble or the poor follow him?' I replied, 'It is the poor who follow him.' He said, 'Are they increasing or decreasing (day by day)?' I replied,' They are increasing.' He said, 'Does anybody amongst those who embrace his (the Prophet's) Religion become displeased and then discard his Religion?'. I replied, 'No. ' He said, 'Does he break his promises? I replied, 'No, but we are now at truce with him and we are afraid that he may betray us. Abu Sufyan added, Other than the last sentence, I could not say anything against him. Caesar then asked, 'Have you ever had a war with him?' I replied, 'Yes.' He said, 'What was the outcome of your battles with him?' I replied, 'The result was unstable; sometimes he was victorious and sometimes we.' He said, 'What does he order you to do?' I said, 'He tells us to worship Allah alone, and not to worship others along with Him, and to leave all that our fore-fathers used to worship. He orders us to pray, give in charity, be chaste, keep promises and return what is entrusted to us.' When I had said that, Caesar said to his translator, 'Say to him: I ask you about his lineage and your reply was that he belonged to a noble family. In fact, all the apostles came from the noblest lineage of their nations. Then I questioned you whether anybody else amongst you had claimed such a thing, and your reply was in the negative. If the answer had been in the affirmative, I would have thought that this man was following a claim that had been said before him. When I asked you whether he was ever blamed for telling lies, your reply was in the negative, so I took it for granted that a person who did not tell a lie about (others) the people could never tell a lie about Allah. Then I asked you whether any of his ancestors was a king. Your reply was in the negative, and if it had been in the affirmative, I would have thought that this man wanted to take back his ancestral kingdom. When I asked you whether the rich or the poor people followed him, you replied that it was the poor who followed him. In fact, such are the followers of the apostles. Then I asked you whether his followers were increasing or decreasing. You replied that they were increasing. In fact, this is the result of true faith till it is complete (in all respects). I asked you whether there was anybody who, after embracing his religion, became displeased and discarded his religion; your reply was in the negative. In fact, this is the sign of true faith, for when its cheerfulness enters and mixes in the hearts completely, nobody will be displeased with it. I asked you whether he had ever broken his promise. You replied in the negative. And such are the apostles; they never break their promises. When I asked you whether you fought with him and he fought with you, you replied that he did, and that sometimes he was victorious and sometimes you. Indeed, such are the apostles; they are put to trials and the final victory is always theirs. Then I asked you what he ordered you. You replied that he ordered you to worship Allah alone and not to worship others along with Him, to leave all that your fore-fathers used to worship, to offer prayers, to speak the truth, to be chaste, to keep promises, and to return what is entrusted to you. These are really the qualities of a prophet who, I knew (from the previous Scriptures) would appear, but I did not know that he would be from amongst you. If what you say should be true, he will very soon occupy the earth under my feet, and if I knew that I would reach him definitely, I would go immediately to meet Him; and were I with him, then I would certainly wash his feet.' Abu Sufyan added, Caesar then asked for the letter of Allah's Apostle and it was read. Its contents were: In the name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful (This letter is) from Muhammad, the slave of Allah, and His Apostle, to Heraculius, the Ruler of the Byzantine. Peace be upon the followers of guidance. Now then, I invite you to Islam (i.e. surrender to Allah), embrace Islam and you will be safe; embrace Islam and Allah will bestow on you a double reward. But if you reject this invitation of Islam, you shall be responsible for misguiding the peasants (i.e. your nation). O people of the Scriptures! Come to a word common to you and us and you, that we worship. None but Allah, and that we associate nothing in worship with Him; and that none of us shall take others as Lords besides Allah. Then if they turn away, say: Bear witness that we are (they who have surrendered (unto Him)..(3.64) Abu Sufyan added, When Heraclius had finished his speech, there was a great hue and cry caused by the Byzantine Royalties surrounding him, and there was so much noise that I did not understand what they said. So, we were turned out of the court. When I went out with my companions and we were alone, I said to them, 'Verily, Ibn Abi Kabsha's (i.e. the Prophet's) affair has gained power. This is the King of Bani Al-Asfar fearing him. Abu Sufyan added, By Allah, I remained low and was sure that his religion would be victorious till Allah converted me to Islam, though I disliked it.
Narrated `Abdullah bin Masud: I asked Allah's Apostle, O Allah's Apostle! What is the best deed? He replied, To offer the prayers at their early stated fixed times. I asked, What is next in goodness? He replied, To be good and dutiful to your parents. I further asked, what is next in goodness? He replied, To participate in Jihad in Allah's Cause. I did not ask Allah's Apostle anymore and if I had asked him more, he would have told me more.
Read CompleteNarrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle said, There is no Hijra (i.e. migration) (from Mecca to Medina) after the Conquest (of Mecca), but Jihad and good intention remain; and if you are called (by the Muslim ruler) for fighting, go forth immediately.
Read CompleteNarrated `Aisha: (That she said), O Allah's Apostle! We consider Jihad as the best deed. Should we not fight in Allah's Cause? He said, The best Jihad (for women) is Hajj-Mabrur (i.e. Hajj which is done according to the Prophet's tradition and is accepted by Allah).
Read CompleteNarrated Abu Huraira: A man came to Allah's Apostle and said, Instruct me as to such a deed as equals Jihad (in reward). He replied, I do not find such a deed. Then he added, Can you, while the Muslim fighter is in the battle-field, enter your mosque to perform prayers without cease and fast and never break your fast? The man said, But who can do that? Abu- Huraira added, The Mujahid (i.e. Muslim fighter) is rewarded even for the footsteps of his horse while it wanders bout (for grazing) tied in a long rope.
Read CompleteNarrated Abu Sa`id Al-Khudri: Somebody asked, O Allah's Apostle! Who is the best among the people? Allah's Apostle replied A believer who strives his utmost in Allah's Cause with his life and property. They asked, Who is next? He replied, A believer who stays in one of the mountain paths worshipping Allah and leaving the people secure from his mischief.
Read Complete